در جاناں پہ فدائی کو اجل آئی ہو
از: جانشین حضور مفتی اعظم حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری، ازہری، بریلوی رضی اللہ عنہ ( سفینۂ بخشش)
در جاناں پہ فدائی کو اجل آئی ہو
زندگی آکے جنازے پہ تماشائی ہو
تیری صورت جو تصور میں اُتر آئی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
نیک ساعت سے اجل عیش ابد لائی ہو
در جاناں پہ کوئی محو جبیں سائی ہو
سنگ در پر ترے یوں ناصیہ فرسائی ہو
خود کو بھولا ہوا جانا ترا شیدائی ہو
خود بخود خلد وہاں کھنچ کے چلی آئی ہو
دشت طیبہ میں جہاں بادیہ پیمائی ہو
موسم مے ہو وہ گیسو کی گھٹا چھائی ہو
چشم میگوں سے پئیں جلسۂ صہبائی ہو
چاندنی رات میں پھر مے کا وہ اک دور چلے
بزم افلاک کو بھی حسرت مے آئی ہو
ان کے دیوانے کھلی بات کہاں کرتے ہیں
بات سمجھے وہی جو صاحب دانائی ہو
مہر خاور پہ جمائے نہیں جمتی نظریں
وہ اگر جلوہ کریں کو تماشائی ہو
دشت طیبہ میں چلوں چل کے گروں گر کے چلوں
ناتوانی مری صد رشک توانائی ہو
گل ہو جب اخترؔ خستہ کا چراغ ہستی
اس کی آنکھوں میں تیرا جلوۂ زیبائی ہو